جہان تنگ میں تنہا ہوا میں
بہت اچھا ہوا رسوا ہوا میں
مری آنکھوں کا پہچانا ہوا تو
نگاہ دہر کا دیکھا ہوا میں
ابھر آئی ہوا کی موج سر میں
حریف موجۂ دریا ہوا میں
جبین آب کی تحریر دنیا
حروف سنگ سے لکھا ہوا میں
فنا کے ہاتھ میں میری بقا ہے
خود اپنی خاک سے پیدا ہوا میں
ہوئی وابستہ مجھ سے ترش روئی
کہ نشہ ہوں مگر اترا ہوا میں
چھپا ہوں آج تک اس کی نظر سے
زمانے بھر پہ آئینہ ہوا میں
غزل
جہان تنگ میں تنہا ہوا میں
زاہد فارانی