جہان رنگ و بو پر چھا رہا ہے
ہر اک پردے سے وہ جلوہ نما ہے
بشر ٹھوکر پہ ٹھوکر کھا رہا ہے
سزا اپنے کئے کی پا رہا ہے
تمنا اور پھر ان کی تمنا
یہ عرفان خودی کی انتہا ہے
بتوں کو دیکھ کر آتا ہے تو یاد
بتوں کے حسن میں جلوہ ترا ہے
کہیں تو ہے کہیں تصویر تیری
نہ کعبہ ہے نہ کوئی بت کدہ ہے
تمہاری یاد کر لیتا ہوں تازہ
بتوں کو کون کافر پوجتا ہے
نہیں چارہ کسی کے پاس اس کا
محبت ایک درد لا دوا ہے
شراب زیست پیتا جا رہا ہوں
سرور ہوش بڑھتا جا رہا ہے
جگر میں چبھ رہی ہے نوک مژگاں
بلا کا درد فارغؔ ہو رہا ہے

غزل
جہان رنگ و بو پر چھا رہا ہے
لکشمی نارائن فارغ