جہان مرگ صدا میں اک اور سلسلہ ختم ہو گیا ہے
کلام یعنی خدا کا ہم سے مکالمہ ختم ہو گیا ہے
ہمیں تو بس یہ پتہ چلا تھا کہ اونٹوں والے چلے گئے ہیں
کسی کو اس کی خبر نہیں جو معاملہ ختم ہو گیا ہے
نہ تتلیوں جیسی دوپہر ہے نہ اب وہ سورج گلاب جیسا
جسے محبت کہا گیا وہ مغالطہ ختم ہو گیا ہے
تمہاری باتوں کے جن پہ شہتوت جھڑ رہے ہوں وہی بتائیں
کہ تلخ آباد میں ہمارا تو ذائقہ ختم ہو گیا ہے
ہماری آنکھوں سے خواب و خس کے تمام پشتے ہٹائے جائیں
ہمارا ناراض پانیوں سے معاہدہ ختم ہو گیا ہے
اب اس لیے بھی ہمیں محبت کو طول دینا پڑے گا تابشؔ
کسی نے پوچھا تو کیا کہیں گے کہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے
غزل
جہان مرگ صدا میں اک اور سلسلہ ختم ہو گیا ہے
عباس تابش