جہاں بات وحدت کی گہری رہے گی
وہاں فکر اپنی نہ تیری رہے گی
لجاجت امیروں سے یک دم اٹھا دے
قناعت سے اپنی فقیری رہے گی
نہ جینے کی خواہش نہ مرنے کا غم ہے
جو حالت ہے اپنی وہ ٹھہری رہے گی
مجلہ ہوا جب سے دل ہے ہمارا
نہ مرقد میں اپنے اندھیری رہے گی
گھمنڈ ہر طرح کرنا زیبا نہیں ہے
جوانی کسی کی نہ پیری رہے گی
خدائی کی قدرت خودی سے ہے مرکزؔ
مقلد ہیں جب تک اسیری رہے گی

غزل
جہاں بات وحدت کی گہری رہے گی
یاسین علی خاں مرکز