جہالت کا منظر جو راہوں میں تھا
وہی بیش و کم درس گاہوں میں تھا
جو خنجر بکف قتل گاہوں میں تھا
وہی وقت کے سربراہوں میں تھا
عجب خامشی اس کے ہونٹوں پہ تھی
عجب شور اس کی نگاہوں میں تھا
اسے اس لئے مار ڈالا گیا
کہ وہ زیست کے خیر خواہوں میں تھا
ہماری نظر سے وہ کل گر گیا
جو کل تک ہماری نگاہوں میں تھا
وہ کیا دیتا اخترؔ کسی کو پناہ
جو خود عمر بھر بے پناہوں میں تھا

غزل
جہالت کا منظر جو راہوں میں تھا
وکیل اختر