EN हिंदी
جگا جنوں کو ذرا نقشۂ مقدر کھینچ | شیح شیری
jaga junun ko zara naqsha-e-muqaddar khinch

غزل

جگا جنوں کو ذرا نقشۂ مقدر کھینچ

افروز عالم

;

جگا جنوں کو ذرا نقشۂ مقدر کھینچ
نئی صدی کو نئی کربلا سے باہر کھینچ

میں ذہنی طور سے آزاد ہونے لگتا ہوں
مرے شعور مجھے اپنی حد کے اندر کھینچ

نئی زمین لہو کا خراج لیتی ہے
دیار غیر میں بھی خوشنما سا منظر کھینچ

اداس رات میں تارے گواہ بنتے ہیں
رگ حباب سے تو قاتلانہ خنجر کھینچ

ابھی ستاروں میں باقی ہے زندگی کی رمق
کچھ اور دیر ذرا نرم گرم چادر کھینچ

وجود شہر تو جنگل میں ڈھل چکا عالمؔ
اب اس جگہ سے مجھے جانب سمندر کھینچ