EN हिंदी
جفائیں ہوتی ہیں گھٹتا ہے دم ایسا بھی ہوتا ہے | شیح شیری
jafaen hoti hain ghuTta hai dam aisa bhi hota hai

غزل

جفائیں ہوتی ہیں گھٹتا ہے دم ایسا بھی ہوتا ہے

امداد امام اثرؔ

;

جفائیں ہوتی ہیں گھٹتا ہے دم ایسا بھی ہوتا ہے
مگر ہم پر جو ہے تیرا ستم ایسا بھی ہوتا ہے

عدو کے آتے ہی رونق سدھاری تیری محفل کی
معاذ اللہ انساں کا قدم ایسا بھی ہوتا ہے

رکاوٹ ہے خلش ہے چھیڑ ہے ایذا پہ ایذا ہے
ستم اہل وفا پر دم بدم ایسا بھی ہوتا ہے

حسینوں کی جفائیں بھی تلون سے نہیں خالی
ستم کے بعد کرتے ہیں کرم ایسا بھی ہوتا ہے

دل مہجور آخر انتہا ہے ہر نحوست کی
کبھی سعدین ہوتے ہیں بہم ایسا بھی ہوتا ہے

نہ کر شکوہ ہماری بے سبب کی بد گمانی کا
محبت میں ترے سر کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے

نہ ہو درد جدائی سے جو واقف اس کو کیا کہیے
ہمیں وہ دیکھ کر کہتے ہیں غم ایسا بھی ہوتا ہے

بتوں کے ملنے جلنے پر نہ جانا اے دل ناداں
بڑھا کر ربط کر دیتے ہیں کم ایسا بھی ہوتا ہے

ہمیں بزم عدو میں وہ بلاتے ہیں تمنا سے
کرم ایسا بھی ہوتا ہے ستم ایسا بھی ہوتا ہے

جگہ دی مجھ کو کعبے میں خدائے پاک نے زاہد
تو کہتا تھا کہ مقبول حرم ایسا بھی ہوتا ہے

ہوا کرتا ہے سب کچھ اے اثرؔ اس کی خدائی میں
کریں دعویٰ خدائی کا صنم ایسا بھی ہوتا ہے