جفا شعار بھی ہو کوئی مہرباں بھی رہے
کسی کے لب پہ دعائیں بھی ہوں فغاں بھی رہے
تری یہ دشمن جاں کو دعا جبین نیاز
کہ تو رہے یہ تیرا سنگ آستاں بھی رہے
حضور ان کے کہیں حرف مدعا تو مگر
یہ دل بھی پہلو میں ہو منہ میں یہ زباں بھی رہے
ادھر تباہی و غارت گری ادھر تعمیر
گری ہے برق بھی آباد آشیاں بھی رہے
پکارا موت کو تنگ آ کے زندگی سے کبھی
تو محو جستجوئے عمر جاوداں بھی رہے
غم معاش وطن میں یہاں غم غربت
خراب حال وہاں بھی رہے یہاں بھی رہے
رہ وفا میں مٹا دے وہ اپنی ہستی کو
جو چاہتا ہے مرا حشر تک نشاں بھی رہے

غزل
جفا شعار بھی ہو کوئی مہرباں بھی رہے
شاد بلگوی