جفا سے وفا مسترد ہو گئی
یہاں ہم بھی قائل ہیں حد ہو گئی
نگاہوں میں پھرتی ہے آٹھوں پہر
قیامت بھی ظالم کا قد ہو گئی
ازل میں جو اک لاگ تجھ سے ہوئی
وہ آخر کو داغ ابد ہو گئی
مری انتہائے وفا کچھ نہ پوچھ
جفا دیکھ جو لا تعد ہو گئی
مکرتے ہو اللہ کے سامنے
اب ایسا بھی کیا جھوٹ حد ہو گئی
تعلق جو پلٹا تو جھگڑا بنا
محبت جو بدلی تو کد ہو گئی
وہ آنکھوں کی حد نظر کب بنے
نظر خود وہاں جا کے حد ہو گئی
جفا سے انہوں نے دیا دل پہ داغ
مکمل وفا کی سند ہو گئی
قیامت میں مضطرؔ کسی سے ملے
کہاں جا کے گھیرا ہے حد ہو گئی
غزل
جفا سے وفا مسترد ہو گئی
مضطر خیرآبادی