جفا پسندوں کو سنتے ہیں نا پسند ہوا
اب اور بھی دل مایوس درد مند ہوا
مہ دو ہفتہ بنایا ہمیں نے عارض کو
ہماری وجہ سے حسن آپ کا دو چند ہوا
جدا جدا ہے مذاق اپنا اپنا دنیا میں
ہمیں جو درد تو دل درد کو پسند ہوا
وہ پھیر پھیر گئے توڑ توڑ کر اکثر
یہ دل وہ ہے جو کئی بار درد مند ہوا
کوئی ہزار کہے اپنی ہی یہ کرتا ہے
ہمارا دل نہ ہوا کوئی خود پسند ہوا
حباب کا یہ اشارہ ہے اہل غفلت سے
ہوا وہ پست جو دنیا میں سر بلند ہوا
ہوا ہے عشق میں کم حسن اتفاق ایسا
کہ دل کو یار تو دل یار کو پسند ہوا
ہلا دیا سر بام آج جا کے دل ان کا
اثر کو نالۂ قلب حزیں کمند ہوا
دکھایا دل کو یہ دن کبر و بے نیازی نے
کہ ناز اٹھا کے کسی کے نیاز مند ہوا
یہ کون دلبر نازک مزاج سے پوچھے
پسند بھی دل زیبائے درد مند ہوا
غزل
جفا پسندوں کو سنتے ہیں نا پسند ہوا
زیبا