EN हिंदी
جفائے یار کو ہم لطف یار کہتے ہیں | شیح شیری
jafa-e-yar ko hum lutf-e-yar kahte hain

غزل

جفائے یار کو ہم لطف یار کہتے ہیں

فگار اناوی

;

جفائے یار کو ہم لطف یار کہتے ہیں
خزاں کو اپنی زباں میں بہار کہتے ہیں

وہ ایک سنتے نہیں ہم ہزار کہتے ہیں
مگر فسانہ بہر اعتبار کہتے ہیں

زمانہ قید کو سمجھے ہوئے ہے آزادی
کسی کے جبر کو ہم اختیار کہتے ہیں

قفس میں رہ کے مجھے یہ بھی امتیاز نہیں
کسے خزاں کسے فصل بہار کہتے ہیں

نفس نفس جو پیام حیات دیتی ہے
اسی نظر کو تغافل شعار کہتے ہیں

تمہارے حسن کی جس دل کو روشنی نہ ملے
ہم ایسے دل کو چراغ مزار کہتے ہیں

تری نگاہ تغافل سے دل نے پایا ہے
وہ ایک کیف جسے انتظار کہتے ہیں

محبت اور محبت میں آرزوئے وصال
ہم اس بہار کو ننگ بہار کہتے ہیں

خدنگ ناز ابھی ہے تمہاری چٹکی میں
نہ جانے لوگ مجھے کیوں فگارؔ کہتے ہیں