EN हिंदी
جڑوں سے سوکھتا تنہا شجر ہے | شیح شیری
jaDon se sukhta tanha shajar hai

غزل

جڑوں سے سوکھتا تنہا شجر ہے

فصیح اکمل

;

جڑوں سے سوکھتا تنہا شجر ہے
مرے اندر بھی اک پیاسا شجر ہے

ہزاروں آندھیاں جھیلی ہیں اس نے
زمیں تھامے ہوئے بوڑھا شجر ہے

پجاری جل چڑھا کر جا رہے ہیں
نگر میں دکھ کے سکھ داتا شجر ہے

مسافر اور پرندے جانتے ہیں
کہ ان کے واسطے کیا کیا شجر ہے

جو ہو فرصت تو اس کے پاس بیٹھو
قلندر ہے ولی بابا شجر ہے

زمیں پر پیار تو زندہ ہے اس سے
ہم انسانوں سے تو اچھا شجر ہے

ہمارے شہر میں اکملؔ ابھی تک
محبت بانٹنے والا شجر ہے