جبکہ غصے کے بیچ آتے ہو
لاکھ لاکھ ایک کی سناتے ہو
کیسے ہر کھائے سے بنے پیارے
بات کرتے ہی کاٹ کھاتے ہو
اڑتی چڑیا کو ہم پرکھتے ہیں
کسے باتوں میں تم اڑاتے ہو
کہو مجھ سے بھی چل سکوگے کیا
بیٹھو جی باتیں کیا بناتے ہو
جس نہ تس پر نہ دیکھ دہ پڑنا
بھلے متوالے مدھ کے ماتے ہو
جب میں دیکھوں ہوں آنکھ بھر کے تمہیں
بدل آنکھیں مجھے دھراتے ہو
کیا تمہاری گدھی چرائی میں
گالیاں دے جو منہ چراتے ہو
جب نہ تب اٹھ کے اظفریؔ کا گلا
داب دھمکاتے اور ڈراتے ہو
غزل
جبکہ غصے کے بیچ آتے ہو
مرزا اظفری