جبیں پہ شہر کی لکھ کر فضا اداسی کی
بہت ہے خوش کوئی دے کر دعا اداسی کی
حیات پا نہ سکے گی حسین سی خواہش
سماعتوں میں ہے جب تک صدا اداسی کی
فلک کے چاند ستاروں میں روشنی کم ہے
مجھے تو لگتی ہے اس میں خطا اداسی کی
چہکتی شام میں معصوم قہقہوں کے بیچ
سجی ہے کیوں ترے سر پر ردا اداسی کی
چراغ شوق سے آخر وہ ہو گیا روشن
لیے تھی قید میں جس کو گھٹا اداسی کی
نہ ہو سکا مجھے معلوم کر گئی کیسے
مرے وجود کو لرزاں ہوا اداسی کی
غموں کی رت سے کبھی دل فگار مت ہونا
خوشی لٹا گئی اکثر ادا اداسی کی
مسرتوں سے کہیں دل ربا ستم نکلا
لپیٹے شال بہت خوش نما اداسی کی
عجیب حال ہے جعفرؔ بدلتے موسم کا
کسی کو کر گئی شاداں سزا اداسی کی

غزل
جبیں پہ شہر کی لکھ کر فضا اداسی کی
جعفر ساہنی