جبیں پہ گرد ہے چہرہ خراش میں ڈوبا
ہوا خراب جو اپنی تلاش میں ڈوبا
قلم اٹھایا تو سر پر کلاہ کج نہ رہی
یہ شہریار بھی فکر معاش میں ڈوبا
جھلے ہے پنکھا یہ زخموں پہ کون آٹھ پہر
ملا ہے مجھ کو نفس ارتعاش میں ڈوبا
اسے نہ کیوں تری دلداریٔ نظر کہیے
وہ نیشتر جو دل پاش پاش میں ڈوبا
فضاؔ ہے خالق صبح حیات پھر بھی غریب
کہاں کہاں نہ افق کی تلاش میں ڈوبا
غزل
جبیں پہ گرد ہے چہرہ خراش میں ڈوبا
فضا ابن فیضی