جبیں پہ گرد کدورت مرا اصول نہیں
جفائے اہل زمانہ پہ دل ملول نہیں
مری خودی تو کھٹکتی تھی تیری آنکھوں میں
ترے حضور مرا عجز بھی قبول نہیں
یہ بکھرے تارے یہ بے نظم پھول شاہد ہیں
نمود حسن میں پابندئ اصول نہیں
ضرور کچھ تو ہے اپنی حیات کا مقصد
سنا ہے چیز کوئی دہر میں فضول نہیں
مرے وقار پہ تیرے کرم پہ حرف آتا
مقام شکر ہے میری دعا قبول نہیں
مرے غبار سے دامن کشاں ہو کیوں یارو
چمن کی بوئے پریشاں ہوں بن کی دھول نہیں
غزل
جبیں پہ گرد کدورت مرا اصول نہیں
منظور احمد منظور