جبیں پہ دھوپ سی آنکھوں میں کچھ حیا سی ہے
تو اجنبی ہے مگر شکل آشنا سی ہے
خیال ہی نہیں آتا کسی مصیبت کا
ترے خیال میں ہر بات غم ربا سی ہے
جہاں میں یوں تو کسے چین ہے مگر پیارے
یہ تیرے پھول سے چہرے پہ کیوں اداسی ہے
دل گمیں سے بھی جلتے ہیں شادمان حیات
اسی چراغ کی اب شہر میں ہوا سی ہے
ہمیں سے آنکھ چراتا ہے اس کا ہر ذرہ
مگر یہ خاک ہمارے ہی خوں کی پیاسی ہے
اداس پھرتا ہوں میں جس کی دھن میں برسوں سے
یوں ہی سی ہے وہ خوشی بات وہ ذرا سی ہے
چہکتے بولتے شہروں کو کیا ہوا ناصرؔ
کہ دن کو بھی مرے گھر میں وہی اداسی ہے
غزل
جبیں پہ دھوپ سی آنکھوں میں کچھ حیا سی ہے
ناصر کاظمی