جبیں کو چین کہاں زیر لب دعا ہے بس
طلب کی چاہ کا اک تو ہی آسرا ہے بس
مکین خاک فقط شور و شر میں ڈوبے ہیں
حیات کیا ہے کہ آرائش قضا ہے بس
حصار عکس سے نکلیں تو اپنی سوچیں ہم
ابھی تو پیش نظر رقص آئنہ ہے بس
شعور کہتا ہے اس کو اتارنا ہوگا
عروس وقت پہ پیراہن انا ہے بس
یہ اہل فکر سے کہہ دو کہ وسعت امکاں
ابھی بھی پاۓ تصور کا نقش پا ہے بس
خرد کے بس میں نہیں دوسرے کا غم عامرؔ
غلط سمجھ ہے جنوں ایک ولولہ ہے بس
غزل
جبیں کو چین کہاں زیر لب دعا ہے بس
عامر نظر