جب زلف شریر ہو گئی ہے
خود اپنی اسیر ہو گئی ہے
جنت کے مقابلے میں دنیا
آپ اپنی نظیر ہو گئی ہے
جو بات تری زباں سے نکلی
پتھر کی لکیر ہو گئی ہے
ہونٹوں پہ ترے ہنسی مچل کر
جلووں کی لکیر ہو گئی ہے
جو آہ مری زباں سے نکلی
ارجن کا وہ تیر ہو گئی ہے
شاید کوئی بے نظیر بن جائے
وہ بدر منیر ہو گئی ہے
اے باد صبا تو چھو کے گیسو
خوشبو کی سفیر ہو گئی ہے
آواز شکست دل ہی عنواںؔ
آواز ضمیر ہو گئی ہے
غزل
جب زلف شریر ہو گئی ہے
عنوان چشتی