جب ذرا رات ہوئی اور مہ و انجم آئے
بارہا دل نے یہ محسوس کیا تم آئے
ایسے اقرار میں انکار کے سو پہلو ہیں
وہ تو کہیے کہ لبوں پہ نہ تبسم آئے
نہ وہ آواز میں رس ہے نہ وہ لہجے میں کھنک
کیسے کلیوں کو ترا طرز تکلم آئے
بارہا یہ بھی ہوا انجمن ناز سے ہم
صورت موج اٹھے مثل تلاطم آئے
اے مرے وعدہ شکن ایک نہ آنے سے ترے
دل کو بہکانے کئی تلخ توہم آئے
غزل
جب ذرا رات ہوئی اور مہ و انجم آئے
اسد بھوپالی