جب ذرا نغموں سے بلبل گل فشاں ہو جائے گا
ٹوکری پھولوں کی سارا آشیاں ہو جائے گا
جب اٹھے گا جوش مے بن جائے گا وہ آفتاب
جب اڑے گا خم کا سرپوش آسماں ہو جائے گا
جسم و جاں کا فیصلہ سارا اسی کے ہاتھ ہے
پاؤں تیری تیغ کا خود درمیاں ہو جائے گا
معجز شق القمر دکھلائے گی انگشت حسن
چاند تیرے پرتوے سے خود کتاں ہو جائے گا
رند ہاں عمامۂ زاہد پہ ہوں ہتھ پھیریاں
کشتیٔ مے کا اک اچھا بادباں ہو جائے گا
سر پہ چھن چھن کر بلائیں آئیں گی خاموش قدرؔ
آہ کھینچو گے تو چھلنی آسماں ہو جائے گا
غزل
جب ذرا نغموں سے بلبل گل فشاں ہو جائے گا
قدر بلگرامی