EN हिंदी
جب ذرا ہوئی آہٹ شاخ پر ہلے پتے | شیح شیری
jab zara hui aahaT shaKH par hile patte

غزل

جب ذرا ہوئی آہٹ شاخ پر ہلے پتے

مرتضیٰ برلاس

;

جب ذرا ہوئی آہٹ شاخ پر ہلے پتے
پیڑ سو گئے لیکن جاگتے رہے پتے

سیکڑوں پرندوں نے اوڑھ لی ردا جیسے
رات کی سیاہی میں اوٹ بن گئے پتے

سرخ خون شاخوں کا ہے وجود میں شامل
دیکھ کر فضا لیکن سبز ہو گئے پتے

جیسے ان کے دامن پر دھول تھی نہ دھبہ تھا
اک ذرا سی بارش سے کیسے دھل گئے پتے

جب بھی لو چلی یارو سبز رت بدلنے کو
تالیاں بجائیں گے پھر یہی ہرے پتے

جنگلوں میں خاموشی حبس کی علامت ہے
تازگی سی دیتے ہیں بولتے ہوئے پتے

بے لباس ہو کر بھی پیڑ تو رہے قائم
ہجرتوں کے موسم نے در بہ در کیے پتے

اب چمن کی رکھوالی مشغلہ ہے بچوں کا
پھول جب نہیں پائے نوچنے لگے پتے