EN हिंदी
جب وہ نظریں دو چار ہوتی ہیں | شیح شیری
jab wo nazren do-chaar hoti hain

غزل

جب وہ نظریں دو چار ہوتی ہیں

آفتاب شاہ عالم ثانی

;

جب وہ نظریں دو چار ہوتی ہیں
تیر سی دل کے پار ہوتی ہیں

رنجشیں میری اور اس گل کی
رات دن میں ہزار ہوتی ہیں

عشق میں بے حجابیاں دل کو
کیا ہی بے اختیار ہوتی ہیں

تو جو جاتا ہے باغ میں اے گل
بلبلیں سب نثار ہوتی ہیں

قمریاں بندگی میں تجھ قد کی
سر بسر طوق دار ہوتی ہیں

آفتابؔ اس کے وصل کی باتیں
باعث اضطرار ہوتی ہیں