جب وہ نظریں دو چار ہوتی ہیں
تیر سی دل کے پار ہوتی ہیں
رنجشیں میری اور اس گل کی
رات دن میں ہزار ہوتی ہیں
عشق میں بے حجابیاں دل کو
کیا ہی بے اختیار ہوتی ہیں
تو جو جاتا ہے باغ میں اے گل
بلبلیں سب نثار ہوتی ہیں
قمریاں بندگی میں تجھ قد کی
سر بسر طوق دار ہوتی ہیں
آفتابؔ اس کے وصل کی باتیں
باعث اضطرار ہوتی ہیں
غزل
جب وہ نظریں دو چار ہوتی ہیں
آفتاب شاہ عالم ثانی