EN हिंदी
جب وہ نا مہرباں نہیں ہوتا | شیح شیری
jab wo na-mehrban nahin hota

غزل

جب وہ نا مہرباں نہیں ہوتا

جگر جالندھری

;

جب وہ نا مہرباں نہیں ہوتا
آسماں آسماں نہیں ہوتا

ہم زمانے سے کیا امید کریں
تو ہی جب مہرباں نہیں ہوتا

کہاں آرام ڈھونڈنے جائیں
کس جگہ آسماں نہیں ہوتا

میری نظروں سے دور رہ کر بھی
وہ نظر سے نہاں نہیں ہوتا

عذر اب کیوں ہے مجھ سے ملنے میں
میں ترے درمیاں نہیں ہوتا

اس کو نظریں بیان کرتی ہیں
جو زباں سے بیاں نہیں ہوتا

درد کا کیا ثبوت پیش کروں
اس کا کوئی نشاں نہیں ہوتا

دیر و کعبہ میں ڈھونڈنے والو
اس کا جلوہ کہاں نہیں ہوتا

لاکھ آرام ہوں قفس میں مگر
پھر بھی وہ آشیاں نہیں ہوتا

امتحان وفا سے بڑھ کے جگرؔ
کوئی بھی امتحاں نہیں ہوتا