جب وہ مجھ سے کلام کرتا ہے
دھڑکنوں میں قیام کرتا ہے
لاکھ تجھ سے ہے اختلاف مگر
دل ترا احترام کرتا ہے
دن کہیں بھی گزار لے یہ دل
تیرے کوچے میں شام کرتا ہے
ہاتھ تھاما نہ حال ہی پوچھا
یوں بھی کوئی سلام کرتا ہے
وہ فسوں کار اس قدر ہے شبیؔ
بیٹھے بیٹھے غلام کرتا ہے
غزل
جب وہ مجھ سے کلام کرتا ہے
الماس شبی