EN हिंदी
جب اٹھے تیرے آستانے سے | شیح شیری
jab uThe tere aastane se

غزل

جب اٹھے تیرے آستانے سے

رضا عظیم آبادی

;

جب اٹھے تیرے آستانے سے
جانیو اٹھ گئے زمانے سے

دن بھلا انتظار میں گزرا
رات کاٹیں گے کس بہانے سے

جان بھی کچھ ہے جو نہ کیجے نثار
مر نہ جائیں گے اس کے جانے سے

ایک اس زلف سے اٹھایا ہاتھ
چھٹ گئے لاکھوں شاخسانے سے

کوئی مر جاؤ کام ہے اس کو
اپنی تروار آزمانے سے

اس کے تیر نگاہ کے آگے
کچھ ہمیں بن گئے نشانے سے

ناتوانی تجھے غضب آئے
گئے اس کی گلی کے جانے سے

کہاں بنگالہ اور کہاں میں رضاؔ
بس نہیں چلتا آب و دانے سے