جب اس کی تصویر بنائی جاتی ہے
سایہ سایہ دھوپ ملائی جاتی ہے
پہلے اس کی آنکھیں سوچی جاتی ہیں
پھر آنکھوں میں رات بتائی جاتی ہیں
جس دریا میں عکس تمہارا دیکھا تھا
اس دریا میں ناؤ چلائی جاتی ہے
جس در سے ہم وابستہ ہیں اس در سے
پانی کی بھی پیاس بجھائی جاتی ہے

غزل
جب اس کی تصویر بنائی جاتی ہے
اسلم راشد