جب اس کا ادھر ہم گزر دیکھتے ہیں
تو کر دل میں کیا کیا حذر دیکھتے ہیں
ادھر تیر چلتے ہیں ناز و ادا کے
ادھر اپنا سینہ سپر دیکھتے ہیں
ستم ہے کن انکھیوں سے گر تاک لیجے
غضب ہے اگر آنکھ بھر دیکھتے ہیں
نہ دیکھیں تو یہ حال ہوتا ہے دل کا
کہ سو سو تڑپ کے اثر دیکھتے ہیں
جو دیکھیں تو یہ جی میں گزرے ہے خطرہ
ابھی سر اڑے گا اگر دیکھتے ہیں
مگر اس طرح دیکھتے ہیں کہ اس پر
یہ ثابت نہ ہو جو ادھر دیکھتے ہیں
چھپا کر دغا کر نظیرؔ اس صنم کو
غرض ہر طرح اک نظر دیکھتے ہیں
غزل
جب اس کا ادھر ہم گزر دیکھتے ہیں
نظیر اکبرآبادی