جب ترے خواب سے بیدار ہوا کرتے تھے
ہم کسی رنج سے دو چار ہوا کرتے تھے
آئنے چشم تحیر سے ہمیں دیکھتے تھے
ہم کہ جب تیرے گرفتار ہوا کرتے تھے
آج معلوم ہوا تیری ضرورت ہی نہ تھی
ہم یونہی تیرے طلب گار ہوا کرتے تھے
اب تو ہم روز انہیں پاؤں تلے روندتے ہیں
یہ ہی رستے تھے جو دشوار ہوا کرتے تھے
دولت عشق سے ہم کام چلاتے تھے میاں
بس یہی درہم و دینار ہوا کرتے تھے
بارہا یوں بھی ہوا ڈوبے ہوئے خواب مرے
اس کی آنکھوں سے نمودار ہوا کرتے تھے
آپ ہی آپ کہانی سے نکلتے جاتے
جو مرے جیسے اداکار ہوا کرتے تھے
لو کہ ہم بوجھ اٹھاتے ہیں زمیں سے اپنا
ہم کبھی اس پہ بہت بار ہوا کرتے تھے
آج جو لوگ خریدار ہیں تیرے اظہرؔ
کل یہی میرے خریدار ہوا کرتے تھے
غزل
جب ترے خواب سے بیدار ہوا کرتے تھے
اظہر عباس