جب طلسم اثر سے نکلا تھا
زہر شیریں ثمر سے نکلا تھا
اڑ گئے آندھیوں میں جب پتے
خون کتنا شجر سے نکلا تھا
مجھ سے پوچھا اسی نے میرا پتہ
ڈھونڈنے جس کو گھر سے نکلا تھا
دھوپ چمکی تو میہماں کی طرح
سایہ دیوار و در سے نکلا تھا
لوگ سوئے پڑے تھے اور خورشید
حجلۂ ابر تر سے نکلا تھا

غزل
جب طلسم اثر سے نکلا تھا
حامد جیلانی