جب تن نہ رہا میرا ہوں واصل جانانہ
دیوار کے گرنے سے ہم سایا ہو ہم خانہ
آئینے میں دیکھ آ کر منہ اپنا اے جانانہ
تا قدر مری جانے کاش اپنا ہو دیوانہ
اس زلف میں کئی دن سے بیتابیٔ دل گم ہے
زنجیر جھنکتی نہیں کیا مر چکا دیوانہ
بجلی مرے نالہ کی جوں چمکے تو موندے آنکھ
اے آشنا آگے تو اتنا نہ تھا بیگانہ
دل شرم محبت سے تر ہے تو نہ پھیر آنکھیں
کیوں کر پسے چکی میں بھیگا ہوا ہے دانہ
عزلتؔ گیا آنکھوں سے اس واسطے جی اس کا
ہے شمع کی چشم تر تربت گہ پروانہ
غزل
جب تن نہ رہا میرا ہوں واصل جانانہ
ولی عزلت