جب تلک روشنیٔ فکر و نظر باقی ہے
تیرگی لاکھ ہو امکان سحر باقی ہے
کس کے جلووں کا یہ آنکھوں میں اثر باقی ہے
حسن باقی ہے نہ اب حسن نظر باقی ہے
یہ بھی اک معجزۂ جوش جنوں ہے کہ نہیں
پا شکستہ ہوں مگر عزم سفر باقی ہے
یہ بھی کیا نظم جہاں ہے کہ ازل سے اب تک
بس وہی سلسلۂ شام و سحر باقی ہے
آج یوں آبلہ پایان جنوں گزرے ہیں
اک چراغاں سا سر راہ گزر باقی ہے
میں خزاں دیدہ و آوارہ سہی پھر بھی سرورؔ
میرے نغموں میں بہاروں کا اثر باقی ہے

غزل
جب تلک روشنیٔ فکر و نظر باقی ہے
سرور بارہ بنکوی