جب تک وہ شعلہ رو مرے پیش نظر نہ تھا
میں آشنائے لذت سوز جگر نہ تھا
اعزاز رنگ و بو سے نوازا گیا اسے
جس گل کے سر پہ سایۂ شاخ شجر نہ تھا
افسوس آپ سے نہ ہوا عزم التفات
ورنہ مرا پہاڑ کی چوٹی پہ گھر نہ تھا
جو آسماں کی جھیل میں چمکا تمام رات
وہ تیرا عکس نقش قدم تھا قمر نہ تھا
شبنم سے تر تھا میرے سرہانے کا سرخ پھول
لیکن ابھی تو رات کا پچھلا پہر نہ تھا
گزری ہے یوں اٹھائے ہوئے زندگی کا بوجھ
جیسے میں کوئی پل کا ستوں تھا بشر نہ تھا
غزل
جب تک وہ شعلہ رو مرے پیش نظر نہ تھا
اسد جعفری