جب تک سفید آندھی کے جھونکے چلے نہ تھے
اتنے گھنے درختوں سے پتے گرے نہ تھے
اظہار پر تو پہلے بھی پابندیاں نہ تھیں
لیکن بڑوں کے سامنے ہم بولتے نہ تھے
ان کے بھی اپنے خواب تھے اپنی ضرورتیں
ہم سایے کا مگر وہ گلا کاٹتے نہ تھے
پہلے بھی لوگ ملتے تھے لیکن تعلقات
انگڑائی کی طرح تو کبھی ٹوٹتے نہ تھے
پکے گھروں نے نیند بھی آنکھوں کی چھین لی
کچے گھروں میں رات کو ہم جاگتے نہ تھے
رہتے تھے داستانوں کے ماحول میں مگر
کیا لوگ تھے کہ جھوٹ کبھی بولتے نہ تھے
اظہرؔ وہ مکتبوں کے پڑھے معتبر تھے لوگ
بیساکھیوں پہ صرف سند کی کھڑے نہ تھے
غزل
جب تک سفید آندھی کے جھونکے چلے نہ تھے
اظہر عنایتی