جب تک کھلی نہیں تھی اسرار لگ رہی تھی
یہ زندگی مجھے بھی دشوار لگ رہی تھی
مجھ پر جھکی ہوئی تھی پھولوں کی ایک ڈالی
لیکن وہ میرے سر پر تلوار لگ رہی تھی
چھوتے ہی جانے کیسے قدموں میں آ گری وہ
جو فاصلے سے اونچی دیوار لگ رہی تھی
شہروں میں آ کے کیسے آہستہ رو ہوا میں
صحرا میں تیز اپنی رفتار لگ رہی تھی
لہروں کے جاگنے پر کچھ بھی نہ کام آئی
کیا چیز تھی جو مجھ کو پتوار لگ رہی تھی
اب کتنی کار آمد جنگل میں لگ رہی ہے
وہ روشنی جو گھر میں بے کار لگ رہی تھی
ٹوٹا ہوا ہے شاید وہ بھی ہمارے جیسا
آواز اس کی جیسے جھنکار لگ رہی تھی
عالمؔ غزل میں ڈھل کر کیا خوب لگ رہی ہے
جو ٹیس میرے دل کا آزار لگ رہی تھی
غزل
جب تک کھلی نہیں تھی اسرار لگ رہی تھی
عالم خورشید