جب ستاروں کی ردا کاندھے سے سرکاتی ہے رات
چاند کے سینے سے لگ کر نور بن جاتی ہے رات
خود تڑپ کر کس قدر مجھ کو بھی تڑپاتی ہے رات
اشک شبنم جب مری حالت پہ برساتی ہے رات
خون دل دے کر افق رنگین کر جاتی ہے رات
روشنی ہونے سے پہلے قتل ہو جاتی ہے رات
صبح نو سے کس لئے اس درجہ گھبراتی ہے رات
دیکھ کر خورشید کو جانے کدھر جاتی ہے رات
تیرگئ ہجر کو حد سے بڑھا جاتی ہے رات
آپ کے آنے سے پہلے کیوں چلی آتی ہے رات
میں نظر بن جاؤں تو تصویر بن جاتی ہے رات
ان کی یادوں کے دیئے کی لو بڑھا جاتی ہے رات
دن گزر جاتا ہے افشاںؔ محفل احباب میں
قصر تنہائی میں چپکے سے چلی آتی ہے رات

غزل
جب ستاروں کی ردا کاندھے سے سرکاتی ہے رات
ارجمند بانو افشاں