جب سے سنا دہن ترے اے ماہرو نہیں
سب چپ ہیں اب کسی کی کوئی گفتگو نہیں
نکلے جو قلب سے وہ مری آرزو نہیں
تو مل ہی جائے گر تو میں سمجھوں کہ تو نہیں
آنکھیں لڑا رہے ہو سر بزم غیر سے
اور مجھ سے یہ بیان کہ ہم جنگ جو نہیں
پیدا ہوا ہے ایک کی ضد ایک خلق میں
عزت ہے غیر کی تو مری آبرو نہیں
ٹانکے نہ کھائیں زخمیٔ تیغ نگاہ ناز
کہنے کو ہو کہ جامۂ تن میں رفو نہیں
معشوق کون سا ہے نہ ہو دل میں جس کی یاد
اس مختصر سے باغ میں کس گل کی بو نہیں
یہ حال تیری وعدہ خلافی سے ہو گیا
اب تو قسم بھی کھانے کو مجھ میں لہو نہیں
پیری ہے عاشقی کا مزہ جا چکا رشیدؔ
وہ ہم نہیں وہ دل نہیں وہ آرزو نہیں
غزل
جب سے سنا دہن ترے اے ماہرو نہیں
رشید لکھنوی