EN हिंदी
جب سے قریب ہو کے چلے زندگی سے ہم | شیح شیری
jab se qarib ho ke chale zindagi se hum

غزل

جب سے قریب ہو کے چلے زندگی سے ہم

ندا فاضلی

;

جب سے قریب ہو کے چلے زندگی سے ہم
خود اپنے آئنے کو لگے اجنبی سے ہم

کچھ دور چل کے راستے سب ایک سے لگے
ملنے گئے کسی سے مل آئے کسی سے ہم

اچھے برے کے فرق نے بستی اجاڑ دی
مجبور ہو کے ملنے لگے ہر کسی سے ہم

شائستہ محفلوں کی فضاؤں میں زہر تھا
زندہ بچے ہیں ذہن کی آوارگی سے ہم

اچھی بھلی تھی دنیا گزارے کے واسطے
الجھے ہوئے ہیں اپنی ہی خود آگہی سے ہم

جنگل میں دور تک کوئی دشمن نہ کوئی دوست
مانوس ہو چلے ہیں مگر بمبئی سے ہم