EN हिंदी
جب سے مرنے کی جی میں ٹھانی ہے | شیح شیری
jab se marne ki ji mein Thani hai

غزل

جب سے مرنے کی جی میں ٹھانی ہے

جوشؔ ملیح آبادی

;

جب سے مرنے کی جی میں ٹھانی ہے
کس قدر ہم کو شادمانی ہے

شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے
یہ مرا فن خاندانی ہے

کیوں لب التجا کو دوں جنبش
تم نہ مانوگے اور نہ مانی ہے

آپ ہم کو سکھائیں رسم وفا
مہربانی ہے مہربانی ہے

دل ملا ہے جنہیں ہمارا سا
تلخ ان سب کی زندگانی ہے

کوئی صدمہ ضرور پہنچے گا
آج کچھ دل کو شادمانی ہے