جب سے میں خود شناس ہو گیا ہوں
خامشی کا نواس ہو گیا ہوں
غم سے یوں روشناس ہو گیا ہوں
بیوگی کا لباس ہو گیا ہوں
دوستو تم اچھال دو ہوا میں
میں کہ خالی گلاس ہو گیا ہوں
کتنے ساون برس چکے مجھ پر
جلتے صحرا کی پیاس ہو گیا ہوں
تو ملے تو میں سبز ہو جاؤں
ہجر میں زرد گھاس ہو گیا ہوں
موت کی خوشبو آ رہی ہے منیرؔ
میں کہ بیمار کی سانس ہو گیا ہوں
غزل
جب سے میں خود شناس ہو گیا ہوں
منیر سیفی