جب سے کہ بتوں سے آشنا ہوں
بیگانہ خدائی سے ہوا ہوں
کیوں کر کہوں عارف خدا ہوں
آگاہ نہیں کہ آپ کیا ہوں
جب ہجر میں باغ کو گیا ہوں
میں آتش گل میں جل بجھا ہوں
فرقت میں جو سر پٹک رہا ہوں
مشغول نماز کبریا ہوں
منہ زرد ہے تنکے چن رہا ہوں
اے وحشت کیا میں کہربا ہوں
بیگانہ ہوں کیوں کر آشنا سے
بیگانوں سے میں بھی آشنا ہوں
منہ ان کا نہیں ہے شکر ورنہ
ہر بت کہتا کہ میں خدا ہوں
امید وصال اب کہاں ہے
اس گل سے برنگ بو جدا ہوں
کیوں دوست نہ خوش ہوں جائے ماتم
سیماب کی طرح مر گیا ہوں
خلقت خوش ہو جو میں ہوں پامال
گلزار جہاں میں کیا حنا ہوں
ہنس دوں گا دم میں مثل گل آپ
غنچے کی طرح سے گو خفا ہوں
آتش قدمی سے جلتے ہیں خار
اے قیس میں وہ برہنہ پا ہوں
کرتے ہیں گریز مجھ سے منحوس
بے شبہ میں سایۂ ہما ہوں
ہوں قافلۂ عدم سے آگے
اس راہ میں نالۂ درا ہوں
ناسخؔ کی یہ التجا ہے یا رب
مر جاؤں تو خاک کربلا ہوں
غزل
جب سے کہ بتوں سے آشنا ہوں
امام بخش ناسخ