جب سے دل میں ترے بخشے ہوئے غم ٹھہرے ہیں
محرم اور بھی اپنے لئے ہم ٹھہرے ہیں
غم کہ ہر دور میں ٹھہرائے گئے حاصل زیست
اور اس دور میں ہم صاحب غم ٹھہرے ہیں
ہم تری راہ میں اٹھے ہیں بڑے عزم کے ساتھ
گردش دہر بھی ٹھہری ہے جو ہم ٹھہرے ہیں
شوق آوارگی و ذوق طلب کے قرباں
اٹھ گئے ہیں تو کہاں اپنے قدم ٹھہرے ہیں
میں تصور سے کبھی جن کے لرز اٹھتا تھا
وہی حالات محبت کا بھرم ٹھہرے ہیں
مغفرت ہی سہی میخانہ و مے کے معنی
کہ یہاں آج سفیران حرم ٹھہرے ہیں
صرف آنکھوں ہی میں کم رک نہ سکے میری رئیسؔ
میرے آنسو کسی دامن میں بھی کم ٹھہرے ہیں

غزل
جب سے دل میں ترے بخشے ہوئے غم ٹھہرے ہیں
رئیس رامپوری