جب صبا آئی ادھر ذکر بہار آ ہی گیا
یاد ہم کو انقلاب روزگار آ ہی گیا
کس لیے اب جبر کی تکلیف فرماتے ہیں آپ
بندہ پرور میں تو زیر اختیار آ ہی گیا
لالہ و گل پر جو گزری ہے گزرنے دیجئے
آپ کو تو مہرباں لطف بہار آ ہی گیا
دہر میں رسم وفا بدنام ہو کر ہی رہی
ہم بچاتے ہی رہے دامن غبار آ ہی گیا
ہنس کے بولے اب تجھے زنجیر کی حاجت نہیں
ان کو میری بے بسی کا اعتبار آ ہی گیا
شکوہ سنجی اپنی عادت میں نہیں داخل مگر
دل دکھا تو لب پہ حرف ناگوار آ ہی گیا
غزل
جب صبا آئی ادھر ذکر بہار آ ہی گیا
کلیم عاجز