جب قوم پر آفت آئی ہو جب ملک پڑا ہو مشکل میں
انسان وہ کیا مر مٹنے کا احساس نہ ہو جس کے دل میں
ہنسنے کا طریقہ پیدا کر رونے کا سلیقہ پیدا کر
ہنس پھول کی صورت گلشن میں رو شمع کی صورت محفل میں
قاتل کے دل کی کمزوری نے سارا کام بگاڑ دیا
ہم تشنۂ شوق شہادت تھے خنجر بھی تھا دست قاتل میں
محفل کی محفل بے حس ہے طاری ہے جمود انسانوں پر
اٹھ سوز کا عالم برپا کر اور آگ لگا دے ہر دل میں
ہر قطرہ دریا بننے کو بیتاب دکھائی دیتا ہے
ہر موج رواں بے چین نظر آتی ہے فراق ساحل میں
سرشارؔ وہ کیوں کر کہتے ہیں ہم قوم و وطن کے خادم ہیں
ڈالے نہ گئے جو زنداں میں جکڑے نہ گئے جو سلاسل میں
غزل
جب قوم پر آفت آئی ہو جب ملک پڑا ہو مشکل میں
جیمنی سرشار