EN हिंदी
جب پرسش حال وہ فرماتے ہیں جانیے کیا ہو جاتا ہے | شیح شیری
jab pursish-e-haal wo farmate hain jaaniye kya ho jata hai

غزل

جب پرسش حال وہ فرماتے ہیں جانیے کیا ہو جاتا ہے

فانی بدایونی

;

جب پرسش حال وہ فرماتے ہیں جانیے کیا ہو جاتا ہے
کچھ یوں بھی زباں نہیں کھلتی کچھ درد سوا ہو جاتا ہے

اب خیر سے ان کی بزم کا اتنا رنگ تو بدلا میرے بعد
جب نام مرا آ جاتا ہے کچھ ذکر وفا ہو جاتا ہے

یکتائے زمانہ ہونے پر صاحب یہ غرور خدائی کا
سب کچھ ہو مگر خاکم بدہن کیا کوئی خدا ہو جاتا ہے

قطرہ قطرہ رہتا ہے دریا سے جدا رہ سکنے تک
جو تاب جدائی لا نہ سکے وہ قطرہ فنا ہو جاتا ہے

پھر دل سے فانیؔ سارے کے سارے نقش جفا مٹ جاتے ہیں
جس وقت وہ ظالم سامنے آ کر جان حیا ہو جاتا ہے