جب پرسش حال وہ فرماتے ہیں جانیے کیا ہو جاتا ہے
کچھ یوں بھی زباں نہیں کھلتی کچھ درد سوا ہو جاتا ہے
اب خیر سے ان کی بزم کا اتنا رنگ تو بدلا میرے بعد
جب نام مرا آ جاتا ہے کچھ ذکر وفا ہو جاتا ہے
یکتائے زمانہ ہونے پر صاحب یہ غرور خدائی کا
سب کچھ ہو مگر خاکم بدہن کیا کوئی خدا ہو جاتا ہے
قطرہ قطرہ رہتا ہے دریا سے جدا رہ سکنے تک
جو تاب جدائی لا نہ سکے وہ قطرہ فنا ہو جاتا ہے
پھر دل سے فانیؔ سارے کے سارے نقش جفا مٹ جاتے ہیں
جس وقت وہ ظالم سامنے آ کر جان حیا ہو جاتا ہے
غزل
جب پرسش حال وہ فرماتے ہیں جانیے کیا ہو جاتا ہے
فانی بدایونی