جب پلک جھپکے تو منظر کا ورق بن جائے ہے
دل میں کچھ آئے نظر باہر نظر کچھ آئے ہے
چپ کا سیدھا پیڑ ہے بولو تو جھکتا جائے ہے
ہائے چھونے کی تمنا جو مجھے تڑپائے ہے
سردیوں کی لمبی راتیں اوڑھ کر سو جائے ہے
دن کے سورج کے خیالوں ہی سے دل گرمائے ہے
یاد کی خوشبو سے اپنے جسم کو مہکائے ہے
وہ پری پیکر جو میرے نام سے شرمائے ہے
ہر گھڑی ہر آن بجلی کی طرح لہرائے ہے
میری کچی کوٹھری میں جھانک کر رہ جائے ہے
ذات کے غاروں میں چھپ کر ہی کوئی بہلائے ہے
روشنی میں جسم کی خواہش مجھے لے آئے ہے
چوڑیوں کی بنسری پر راگ ماجدؔ گائے ہے
گھپ اندھیرے میں صدا اس کی بدن بن جائے ہے

غزل
جب پلک جھپکے تو منظر کا ورق بن جائے ہے
ماجد الباقری