EN हिंदी
جب پلک جھپکے تو منظر کا ورق بن جائے ہے | شیح شیری
jab palak jhapke to manzar ka waraq ban jae hai

غزل

جب پلک جھپکے تو منظر کا ورق بن جائے ہے

ماجد الباقری

;

جب پلک جھپکے تو منظر کا ورق بن جائے ہے
دل میں کچھ آئے نظر باہر نظر کچھ آئے ہے

چپ کا سیدھا پیڑ ہے بولو تو جھکتا جائے ہے
ہائے چھونے کی تمنا جو مجھے تڑپائے ہے

سردیوں کی لمبی راتیں اوڑھ کر سو جائے ہے
دن کے سورج کے خیالوں ہی سے دل گرمائے ہے

یاد کی خوشبو سے اپنے جسم کو مہکائے ہے
وہ پری پیکر جو میرے نام سے شرمائے ہے

ہر گھڑی ہر آن بجلی کی طرح لہرائے ہے
میری کچی کوٹھری میں جھانک کر رہ جائے ہے

ذات کے غاروں میں چھپ کر ہی کوئی بہلائے ہے
روشنی میں جسم کی خواہش مجھے لے آئے ہے

چوڑیوں کی بنسری پر راگ ماجدؔ گائے ہے
گھپ اندھیرے میں صدا اس کی بدن بن جائے ہے