جب پاؤں ملا تھا تو رستے بھی نظر آتے
تم تک نہ سہی لیکن تا حد نظر جاتے
تم آنکھ نہیں رکھتے اور دیکھتے ہو سب کچھ
ہم آنکھ بھی رکھتے ہیں اور دیکھ نہیں پاتے
ہر راہ تو منزل تک لے جاتی نہیں سب کو
کچھ دیر ادھر چلتے کچھ دیر ادھر جاتے
پردہ وہ اٹھایا تو پردہ ہی نظر آیا
جب کچھ نہ نظر آیا تو کیوں نہ ٹھہر جاتے
یہ عشق نہیں یہ ہے کم بینی و کم عقلی
اک لطف تبسم پر اتنا نہیں اتراتے
جو ہو نہ جمیلؔ اپنا اوروں کا وہ کیا ہوگا
کیا کھاؤ گے غم میرا تم اپنا ہی غم کھاتے
غزل
جب پاؤں ملا تھا تو رستے بھی نظر آتے
جمیلؔ مظہری