جب اوس بوند بوند گری سائبان سے
خوشبو سی اک اڑی مرے کچے مکان سے
تو ساحلوں پہ جس کا نشاں ڈھونڈھتا پھرا
رشتہ تو اس نے جوڑ لیا بادبان سے
نا قدرئ ہنر کی مجھے تاب ہی نہ تھی
میں نے خود اپنی جنس اٹھا لی دکان سے
تھی اس کی ہی لہو کی صدا جو پلٹ گئی
اس نے تو جھانک کر بھی نہ دیکھا مکان سے
بکھری ہوئی تھیں چاروں طرف نارسائیاں
وہ پاٹنے چلا تھا خلا کو اڑان سے
کیا کیا ہوئیں قبول دعائیں اس ایک شب
پھر ایک پھول بھی نہ گرا آسمان سے
گرمی میں ٹن کی چھت نے جلایا کچھ اور بھی
جاڑے میں برف سر پہ گری سائبان سے
ریزوں میں بٹ گیا ہوں میں شاہینؔ ہر طرف
پہچان لے مجھے مرے بکھرے نشان سے
غزل
جب اوس بوند بوند گری سائبان سے
ولی عالم شاہین