جب ملی ان سے نظر مٹنے کا ساماں ہو گیا
اے قضا خوش ہو ترا اب کام آساں ہو گیا
دل ربا معلوم ہوتی ہیں مجھے تنہائیاں
نقش ہر شے کا مجھے تصویر جاناں ہو گیا
میری خواہش تھی کہ لوٹوں لذت دنیا مگر
وسعت حرص و ہوا سے تنگ داماں ہو گیا
بڑھ رہی ہیں قیمتیں ہر چیز کی بازار میں
ایک ایسا غم ہے جو اب اور ارزاں ہو گیا
شومئ قسمت کہیں یا خصلت انساں اسے
آ کے قابض بزم ہستی پر یہ مہماں ہو گیا
شعلہ زن ہے دل یہاں تو داغ ہائے رنج سے
اور وہ کہتے ہیں خوش ہو کر چراغاں ہو گیا
دیکھ کر چاروں طرف آثار غم آہ و فغاں
کیا کروں مغمومؔ دل میرا ہراساں ہو گیا
غزل
جب ملی ان سے نظر مٹنے کا ساماں ہو گیا
گور بچن سنگھ دیال مغموم