جب میں اس آدمی سے دور ہوا
غم مری زندگی سے دور ہوا
میں بھی اس کے مکان سے نکلا
وہ بھی میری گلی سے دور ہوا
دل سے کانٹا نکالنے کے بعد
درد اپنی کمی سے دور ہوا
وہ سمجھتا رہا کہ روئے گا
میں بڑی خامشی سے دور ہوا
راستے میں جو اک سمندر تھا
میری تشنہ لبی سے دور ہوا
وہ جسے مجھ سے دور ہونا تھا
میں تو ارشدؔ اسی سے دور ہوا

غزل
جب میں اس آدمی سے دور ہوا
ارشد لطیف